ہنزہ :وادی ہنزہ میں قربانی کی قابل تقلید اورانوکھی رسم : منفرد انداز میں قربانی کا گوشت تقسیم.خوبصورت وادی ،زبردست جزبے،تفصیلات کے مطابق ہنزہ میں اسی طرح فلسفہ قربانی کا رواج ہے۔ گاؤں کے تمام افراد جو جانوروں کی قربانی دینے کا عہد کرتے ہیں وہ انہیں ایک مرکزی کمیونٹی سینٹر پر لے جاتے ہیں اورپھرمشترکہ قربانی کی جاتی ہے،
رپورٹ کے مطابق ذبح کرنے کے بعد گوشت اس علاقے کے تمام رہائشیوں میں برابرتقسیم کیا جاتا ہے ،اس سے قطع نظرکہ آپ کا جانورہے یا نہیں ہے ، مزے کی بات یہ ہے کہ کسی کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ جووہ جانورذبح کررہے ہیں اورگوشت تقسیم کررہے ہیں یہ کس کا ہے
اس علاقے کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جو شخص قربانی لیتا ہے وہ گھروالوں کو کبھی کبھار دکھاتا بھی نہیں اورچپ کرکے اس رضاکار کے پکڑا جاتا ہے ، یہ بھی بات طئے ہے کہ رضا کاربھی کسی کوبتانے کا پابند نہیں اورنہ ہی اس کواجازت ہے
اس گاوں کے نوجوانوں کی ایک خوبی یہ ہےکہ یہ خود جانورذبح کرتے ہیں گوشت بھی خود ہی بناتے ہیں اورگاوں میں تقسیم بھی خود کرتے ہیں ، اس مقصد کے لیے کسی آدمی کواجرت پرنہیں لیتے
مزے کی بات یہ ہےکہ اس گاوں کی خواتین خصوصا لڑکیاں بھی اپنے مردوں کی مدد کررہی ہوتی ہیں ، لڑکیاں جہاں جانورذبح کیے جاتے ہیں اس جگہ کی صفائی کرتی ہیں اورمرد دیگراموربجا لاتے ہیں
وادی کے کمیونٹی سینٹر کے سرسبز گارڈن میں تقریباً 130 جانور قربانی کے لیے موجود تھے، جبکہ مقامی افراد اور رضاکار اپنے آلات کو دھار لگا رہے تھے، گارڈن میں موجود کسی شخص کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان جانوروں کے مالکان کون ہیں. نماز عید کے بعد، مجمع میں موجود چند افراد نے زور دار آواز میں نمازیوں سے درخواست کی کہ وہ قربانی کے لیے اپنے جانور پیش کرنے والوں کے لیے خصوصی دعا کریں۔
’رضاکاروں کا گروپ، جسے قربانی کے انتظام کی ذمہ داری دی جاتی ہے، وہ یہ نوٹ کرتا ہے کہ کون کون قربانی کا خواہشمند ہے
اور پھر ایسا ہی ہوا کہ تمام جانور ایک ہی کمیونٹی سینٹر میں ذبح کیے گئے، جس کے بعد ان کا گوشت مقامی افراد میں برابر تقسیم کیا گیا اور ہر کسی کو، چاہے اس نے خود قربانی کی ہو یا نہیں، گوشت کا ایک جتنا حصہ دیا گیا۔
پاکستان کو پروردگار نے حسن سے مالا مال کیا ہے۔ اتنا ورسٹائل لینڈاسکیپ شاید ہی کسی مملکت کے نصیب میں ہو جہاں چاروں موسم، صحرا، منہ زور دریا، نیلگوں جھیلیں، دودھیا آبشاریں، ٹھنڈے چشمے، مِیلوں پھیلے ہوئے گلیشیئرز، دنیا کی بلند چوٹیاں، ہیبت ناک فلک شگاف پہاڑ اور دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔
گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ قراقرم اور دوسری طرف ہمالیہ کے پہاڑوں میں جڑا ایک دلکش نگینہ ہے۔ نیشنل جیوگرافک میگزین نے اسی کی دہائی میں اپنے ٹائٹل پیج پر ایک لکڑی کی ٹوکری اٹھائی ایک لڑکی کی تصویر شائع کی تھی جس کے عقب میں راکاپوشی پہاڑ جلوہ افروز تھا، اور ٹائیٹل تھا ‘ہائی روڈ ٹو ہنزہ’۔ نیشنل جیوگرافک میگزین کا یہ شمارہ میرا ہنزہ سے پہلا تعارف تھا۔
![]() |
ہنزہ پیک اور لیڈی فنگر |
![]() |
گنیش ولیج، ہنزہ |
وادی ہنزہ گلگت سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایسی پرکشش وادی ہے جس کا حسن سیاحوں کو مبہوت کر کے رکھ دیتا ہے۔ ہنزہ کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالیں تو مستنصر حسین تارڑ کے بقول "1889 تک انگریز گلگت میں مقیم رہے، شراب پیتے رہے اور ابلے ہوئے آلو کھاتے رہے۔ ان کے لیے صرف 60 میل دور ایک برفانی وادی میں روپوش اہل ہنزہ خوبصورت مگر وحشی اور جاہل لوگ تھے جو کاشغر اور قندھار جانے والے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے۔
"اسی برس گرومجپکی نام کا ایک روسی افسر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ ہنزہ میں داخل ہوا اور وہاں ایک روسی دستہ تعینات کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس پر انگریزوں کی وہسکی پانی ہوئی اور آلو پتھر ہو گئے۔ میر آف ہنزہ صفدر علی کے ساتھ ان کا معاہدہ تھا کہ وہ ان کی ڈاک کاشغر تک جانے دے گا اور اس کے بدلے انگریز اسے ایک معقول رقم ادا کرتے رہیں گے۔ لیکن روسیوں کی آمد نے انہیں چوکنا کر دیا۔ یوں بھی وہ کسی بہانے کی تلاش میں تھے اور یہ بہانہ تو بہت ہی معقول تھا کہ ہنزہ کے بعد روسی گلگت بھی آسکتے ہیں اور گلگت سے دہلی اگرچہ دور ہے پر ہے تو سہی۔
"1890 میں ان کی فوج کرنل ڈیورنڈ کی سرکردگی میں نلت کے قلعے پر قابض ہو گئیں جو ہنزہ کی شہ رگ سمجھا جاتا تھا۔ اس لڑائی میں اہل ہنزہ کے پاس چند بندوقیں تھیں اور انگریز فوج رائفلوں اور مشین گنوں سے مسلح تھیں، پھر بھی انگریز کو جانی نقصان اس قدر زیادہ تھا انہیں اس چھوٹے سے قلعے کو سر کرنے والی فوج کے دو جوانوں کو وکٹوریہ کراس سے نوازنا پڑا۔
"نلت کے بعد وہ بلتت قلعے کی طرف آئے اور شدید مزاحمت کا سامنا کرنے کے بعد وہ بلتت قلعے پر قابض ہو گئے۔ میر آف ہنزہ صفدر علی اپنے خاندان سمیت چین فرار ہو گیا۔ بلتت قلعے کو انگریز نے خزانے کی تلاش میں تہس نہس کر دیا لیکن انہیں گن پاؤڈر کے چند تھیلوں کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ انگریزوں نے میر صفدر علی کے بھائی کو ہنزہ کا نیا میر مقرر کر دیا۔ اس کے بعد اہلِ ہنزہ کی قسمت کشمیر کے مہاراجہ کے ساتھ منسلک ہو گئی لیکن مرکز سے دوری کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنی من مانی کرتے رہے۔ برصغیر آزاد ہوا تو ہنزہ کی قید بھی ختم ہوئی۔”
![]() |
بلتت قلعہ |
![]() |
ہنزہ میرے لیے پہلا کشش کا استعارہ تھا۔ اپنی سفری دنیا کا آغاز ہنزہ کو دیکھنے کی نیت سے کیا اور پھر شمال کی وادیوں نے ایسا جکڑا کہ کئی سال گلگت بلتستان کی خاک چھاننے میں لگا رہا۔ زندگی تو گھر بیٹھے بھی گزر جاتی ہے پر ایسے ہی جیسے روز روز انسان پھیکا سالن کھاتا جائے۔ سفر میں دل بہلا رہتا ہے۔ میٹرو پولیٹن لائف، چہرے پر دن بہ دن جمتا گاڑیوں کا دھواں، حلق میں گرد مٹی کا ہلکا ذائقہ، آنکھوں میں اترتی پیلاہٹ، سب مانسہرہ سے نکلتے ہی پہلا چشمہ ملتے ہی ایک پانی کے چھینٹے سے بہہ جاتے ہیں۔
کسی زمانے میں یا شاید اب بھی خرابیء صحت کی وجہ سے لوگ صحت افزا مقامات کا رخ کرتے تھے، لیکن اب سمت تو وہی ہے پر اس میں خرابیء دماغ کا عنصر غالب ہے، خاص کر ان لوگوں میں جو بار بار جاتے ہیں۔ موسم سرما سے موسم بہار کی طرف قدرت اپنے ٹرانزیشن پیریڈ میں ہے۔ بدلتے موسم انسان کی دلداری بھی کرتے ہیں اور دل آزاری بھی۔ بہار دلداری کا موسم ہے، رنگ کا، خوشبو کا، پھولوں کا موسم۔ مجھے یاد ہے جب پہلی بار میں دور دراز کے سفر پر نکلا وہ بہار کا موسم تھا۔
![]() |
![]() |
رائل گارڈن، ہنزہ |
بہار سے زیادہ میں خزاں کے موسم کا دلدادہ ہوں پر نگر اور ہنزہ کی بہار بھی اپنے اندر بہت رنگ رکھتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب میں پہلی بار گھر سے نکل کر قراقرم ہائی وے پر گیا تھا اور گلگت پہنچ گیا تھا۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ گلگت سے میں کہاں جاؤں۔ بائیس سال کی عمر میں کوئی بھی انسان کتنا جان سکتا ہے۔ گھر والے پریشان تھے کہ یہ اکیلا کہاں چلا گیا ہے۔ میں سب کے منع کرنے کے باوجود نکل آیا تھا۔ میری جیب میں اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ نہیں تھے اور دو ہزار روپے لگ چکے تھے۔ میں شاید گلگت سے ہی واپس چلا جاتا۔ پنڈی کی بس لینے کے لیے اڈے پر پہنچا تو ایک شمشالی لڑکے نے آواز لگائی کہ ہنزہ جانا ہے۔ ہنزہ کا نام سنا ہوا تھا سو اس طرف کو چل دیا۔
![]() |
![]() |
اپریل کے دن تھے۔ دھوپ چمک رہی تھی لیکن اس میں شدت نہیں تھی۔ گلگت سے نکل کر گاڑی جب نلت پہنچی تو وہاں رنگوں کی بہار تھی۔ سفید، پنک اور نارنجی پھولوں سے درخت لدے ہوئے تھے۔ ہنزہ تک پہنچتے میں رنگوں میں گھِر چکا تھا اور حیران ہوا جا رہا تھا کہ آخر مجھے پہلے کیوں نہیں معلوم تھا کہ بہار میں اتنے رنگ اور ایسے موسم بھی پاکستان میں ہوتے ہیں۔ حسین آباد سے علی آباد تک کی سڑک دونوں طرف پھولوں سے بھرے درختوں سے لدی ہوئی تھی۔ بہار پہلی محبت تھی میرے سفری دنیا کی اور پہلی محبت کہاں بھولتی ہے۔
اب جب کبھی ان دنوں کی یاد آتی ہے تو نہ جانے کیوں دل کرتا ہے کہ یہاں سے پھر بھاگ جاؤں۔ ایسے سماج میں جہاں آپ کے اردگرد قتل و غارت روز کا معمول ہو اور لوگ احتجاج کرنا بھی چھوڑ دیں۔ جہاں دوستوں میں کدورتیں ہوں، حاسدوں کی یلغار ہو، گھروں میں بے چینی ہو، بازاروں میں بے ہنگم شور اور نوکری پر روایتی مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی مشق جاری رہے، وہاں ذہن کو سکون کیسے مل سکتا ہے؟ کوئی کچھ بھی کر لے شہروں میں رہتے ہوئے خبروں سے دور نہیں رہ سکتا۔ وہاں پہاڑوں میں ایک الگ تھلگ رہنے کا احساس ہوتا ہے جیسے انسان اپنے معاشرے سے کٹا ہوا ہو اور وہی کچھ دن کچھ سکون کے بسر ہوتے ہیں۔
![]() |
راکاپوشی کا نظارہ |
![]() |
گولڈن پیک، گلگندر، اور چھوٹوکن پیک پر غروبِ آفتاب کا منظر |
موسم بہار کی آمد آمد ہے۔ میدانی علاقوں میں مِڈ فروری کے بعد یا مارچ میں رت بدلنے لگتی ہے، پھول کھِلنے لگتے ہیں، رنگ بکھرنے لگتے ہیں، فضا مہکنے لگتی ہے۔ ٹرانزیشن پیریڈ چاہے موسم کا ہو یا حالات کا، کرب، تذبذب، بے یقینی، انتشار کا موسم ہوتا ہے۔ تخلیقی صلاحتیں انہی عناصر سے تو پروان چڑھتی ہیں
پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کا سات سو سال پرانا قلعہ بلتت














