انتخابات کے حوالے سے کیس کی سماعت ملتوی، مناسب حکم جاری کریں گے، چیف جسٹس
انتخابات کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے، سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی عدالت میں موجود تھے، بیرسٹر علی ظفر بھی عدالت میں پیش ہوئے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل! ہمیں آپ کا اعتماد چاہئے، شاہ محمود قریشی نے روسٹرم پر آنے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قریشی صاحب! آپ بیٹھ جائیں،آپ کو سنتے ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ ایک تاریخ جو ہم نے دی ہے اس پر ایک پارٹی کے علاوہ سب متفق ہیں مذاکرات کرانا آپ کا کام ہے،ہم اس پر کوئی وضاحت نہیں چاہتے، ہم یہاں پر اس لئے ہیں کہ آپ ہمیں اس کا حل نکال کر بتائیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمیں مذاکرات کے لئے وقت دیں، 19 اپریل کو حکومت اوڑ اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا،26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا، 25 اپریل کو ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی،اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کیلئے با اختیار نہیں ہیں،گزشتہ روزحکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں،چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن سے چار چار نام مانگے ہیں،
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسد قیصرکے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون مذاکرات کیلئے با اختیار ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ منگل کو میڈیا سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کیلئے با اختیار ہیں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کو کس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سینیٹ وفاقی کی علامت ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا، چیئرمین سینیٹ نے مذاکرات کا عمل شروع کیا ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 19 اپریل کو چیمبر میں آپ سے ملاقات ہوئی ، ہمارے ایک ساتھی کی عدم دستیابی کے باعث چار بجے سماعت نہیں ہوئی تھی ، فاروق نائیک نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ سہولت کاری کریں گے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمائندے ہیں نہ اپوزیشن کے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا ، فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں،سینٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، ،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تا کہ تنازعات کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیئے صرف حل بتائیں،
شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ پی ڈی ایم میں مذاکرات کے معاملے پر اختلافات ہیں،انگریزی نہیں اردو میں بات کروں گا، اس وقت تک جب میں عدالت میں کھڑا ہوں، پی ڈی ایم نے مذاکرات کے لئے ہم سے کوئی رابطہ نہیں کیا، حکومت کے اسرار پر عدالت نے سیاسی اتفاق رائے کے لیے موقع دیا تھا۔ تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت عدالت میں پیش ہوئی تھی،پی ڈی ایم میں آج بھی مزاکرات پر اتفاق رائے نہیں ہے۔عدالتی حکم کو پی ٹی آئی نے سنجیدگی سے لیا ،سپریم کورٹ کا 14 مئی کا فیصلہ حتمی ہے۔ چیئرمین سینیٹ نے صرف سینیٹرز کے نام مانگے ہیں،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ چیئرمین سینٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے۔مذاکرات سیاسی جماعتوں کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیںسیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے۔ سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مذاکرات میں نیک نیتی دکھانے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، ہم آئین سے ہٹ کر کچھ نہیں کر سکتے، شاہ محمود قریشی نے عدالت میں کہا کہ پارلیمان میں کہا گیا کہ ججز کو استحقاق کمیٹی میں بلایا جائیگا ،جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ سیاسی باتیں نہ کریں،ان کو چھوڑ دیں،ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ اب کیا چاہتے ہیں،عوام کی فلاح وبہبود اور ان کے ووٹ کے حق کے لئے کسی حل پر پہنچتے ہیں تو بہتر ہے، اگر کسی حل پر نہیں پہنچتے تو جیسا چل رہا ہے ویسے چلے گا،شاہ محمود قریشی نے عدالت میں کہا کہ عدالت نے موقع دیا، ہم نے اتفاق رائے کیلئے ایک صفحے پر جواب تیار کیا، وہ میڈیا کو نہیں دوں گا، عدالت چاہے تو اُسے دے دوں گا، سینٹ کمیٹی صرف تاخیری حربہ ہے ، قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر رولز کی خلاف ورزی کی گئی ، دھرنے کے دوران کہا تھا پارلیمان میرا سیاسی کعبہ ہے، زیر سماعت معاملے کو پارلیمان میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا، پارلیمان میں دھمکی آمیز لہجے اور زبان سن کر شرمندگی ہوئی،
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مذاکرات کے لئے ایک ماحول بنانا پڑتا ہے،ایسی باتیں نہ کی جائیں جس سے ماحول خراب ہوں،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس کام میں صبر اور تحمل چاہئے،اِن کو بھی یہی تلقین کرینگے کہ صبر و تحمل ہو،گزشتہ سماعت پر یہ اتفاق رائے ہوا تھا کہ ایک دن الیکشن ہوں،مذاکرات کے معاملے میں صبر اور تحمل سے کام لینا ہوگا، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو سینیٹ نے مذاکرات پر آمادہ کیا،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے،تحریک انصاف والے چاہتے ہیں آج ہی مذاکرات ہوں ، ہم نے حکومت کو دیکھنا ہے کہ وہ مذاکرات کیلئے کیا کر رہی ہے، مذاکرات کیلئے نام دینے میں کیا سائنس ہے؟ کیا حکومت نے اپنے 5 نام دئیے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پی ٹی آئی چاہے تو 3 نام دے دے،پانچ لازمی دیں ،حکومت کے نام تین چار گھنٹے میں فائنل ہو جائیں گے،چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آج توقع تھی کہ دونوں فریقین کی ملاقات ہوگی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوشش ہوگی کہ دونوں کمیٹیوں کی آج پہلی ملاقات ہوجائے،وکیل شاہ خاور نے کہا کہ دونوں فریقین متفق تو حل نکل آئے گا، فواد چودھری ے کہا کہ سپریم کورٹ بھی آئین تبدیل نہیں کرسکتی،سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں ملنا چاہیے،ایسے ہوا تو کوئی بھی حکومت الیکشن کیلئے فنڈز جاری نہیں کرے گی، پارلیمان اور عدالت نہیں سپریم صرف آئین ہے، سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے بھی آئین تبدیل نہیں کرسکتا،
کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی، عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مناسب حکم جاری کرینگے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سب کو علم ہے آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے، خدا کے واسطے آئین کے لئے اکٹھے بیٹھ جائیں،ہم اس کے بعد ایک آرڈر جاری کرینگے، عدالت کوئی ٹائم لائن نہیں دے گی، مناسب حکم جاری کریں گے،
پاکستان تحریک انصاف کے مذاکراتی کمیٹی کے ارکان شاہ محمود قریشی ، فواد چوہدری اور بیرسٹر علی ظفر سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں، اس موقع پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم مزاکرات کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں، یہ لوگ مزاکرات میں سنجیدہ نظر نہیں آرہے یہ عوام سے بھاگے ہوئے لوگ ہیں ،سینٹ کمیٹی کو تحریک انصاف نے مسترد کردیا ہے یہ معاملہ سینیٹ کا نہیں ہے اسلیئے ہمارا واضح موقف ہے کہ آج سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی وہ دیکھنا ہے۔
اس موقع پر سپریم کورٹ کے باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں،ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کیس: سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ آج ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔ سماعت سے قبل وزیراعظم شہباز شریف سے اٹارنی جنرل کی ملاقات ہوئی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے اٹارنی جنرل کو اہم ہدایات جاری کیں، اٹارنی جنرل عدالت میں حکومتی موقف پیش کریں گے،
دوسری جانب وفاقی حکومت نے 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی کی تجویز مسترد کر دی ہے ، میڈیا رپورٹس کے مطابق ذرائع کے مطابق انتخابات کے فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کرنے کی تجویز گزشتہ روز کابینہ اجلاس میں اٹارنی جنرل نے دی تھی کابینہ کی رائے میں نظرثانی دائر کرنے کا مطلب فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا نظرثانی دائر کردی تو یہ فیصلہ 3-4 کا ہونے کے موقف کی نفی ہوگی ذرائع نے بتایا کہ کابینہ ارکان کی رائے کے مطابق اکثریتی فیصلے میں انتخابات کا حکم ہی نہیں تو نظرثانی کس بات کی؟
علاوہ اذیں سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون 2023 کے خلاف درخواست دائر کردی گئی ،درخواست میں وفاقی حکومت، اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر قانون، وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکرٹری کو فریق بنایا گیا ہے ،درخواست تحریک انصاف کے وکیل ایڈووکیٹ اظہرصدیق کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہے ، دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون غیرآئینی و غیر قانونی ہے درخواست میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کوعدالتی فیصلہ تک معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے ،درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کو گزٹ نوٹیفکیشن کے لئے قانون پر دستخط سے روکا جائے، قانون کو کالعدم قراردیا جائے ،
ووٹ کا حق سب سے بڑا بنیادی حق ہے،اگر یہ حق نہیں دیاجاتا تو اس کامطلب آپ آئین کو نہیں مانتے ,عمران خان
سعیدہ امتیاز کے دوست اورقانونی مشیرنے اداکارہ کی موت کی تردید کردی
جانوروں پر ریسرچ کرنیوالے بھارتی ادارے نےگائے کے پیشاب کو انسانی صحت کیلئے مضر قراردیا
یورپی خلائی یونین کا نیا مشن مشتری اور اس کے تین بڑے چاندوں پر تحقیق کرے گا
برطانوی وزیرداخلہ کا پاکستانیوں کو جنسی زیادتی کا مجرم کہنا حقیقت کے خلاف ہے،برٹش جج
تحریک انصاف کے رہنما فیصل جاوید کا کہنا ہے کہ پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں ،یہ لوگ زاتی مفادات کے لیئے عدالتوں پر حملہ آور ہیں آج توہین عدالت کی کاروائی شروع نہیں ہوئی تو بہت حیران کن بات ہوگیعمران خان کے خوف سے یہ لوگ انتخابات سے بھاگ رہے ہیں کل اسمبلی میں غیر آئینی اجلاس ہوا
واضح رہے کہ چار اپریل کو تین رکنی بینچ نے حکومت کو 27 اپریل تک انتخابات کے لیے 21 ارب روپےکے فنڈز فراہم کرنےکی رپورٹ جمع کرانےکا حکم دیا تھا الیکشن کے لیے 21 ارب روپے جاری کرنے کی تیسری مہلت بھی گزر گئی، سپریم کورٹ نے حکومت سے فنڈز جاری کرنےکی رپورٹ آج طلب کر رکھی ہے