تمباکو نوشی یا سگریٹ آج کل اس طرح عام ہے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی پہنچ میں ہے جیسے ٹافیاں گولیاں پہنچ میں ہوتی تھیں۔ "تمباکونوشی صحت کے لیے مضر ہے وزارت صحت” کے چلنے والے اشتہارات کے باوجود میڈیا کے زریعے بڑے منظم انداز میں اسکا پھیلاؤ ہورہا ہے۔ جس طرح خوبصورتی سے سگریٹ پینے والوں کو بڑے بڑے سخت کام کرتے دیکھایا جاتا ہے بلڈنگز پار کرنا سکھایا جاتا ہے دریاؤں کو عبور کرنا سکھایا جاتا ہے بعد میں مضر صحت کا میسج دے بھی دیں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ دوسری طرف ضروریات زندگی دن بدن مہنگی ہورہی ہے ہر چیز، پر ٹیکس عائد ہورہا ہے لیکن تمباکو نوشی پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر ایک کی پہنچ میں ہے جس کا نقصان ابھی تو ہوہی رہا ہے آنے والے وقت میں شدید ہوگا۔
سگریٹ نوشی کے دو طرح کے نقصانات ہیں ایک ہے صحت دوسری اخلاقیات۔ صحت کے حوالے سے بات کریں تو منہ کے کینسر سے لے کر جگر اور پھیپھڑوں کے کینسر تک کا موجب یہی سگریٹ ہے۔ اس کے دھوئیں سے پھیپڑے سیاہ ہوجاتے ہیں سانس لینے والے مسائل سارے اسی کی وجہ سے ہیں۔سگریٹ کا دھواں صرف سگریٹ پینے والوں کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اسکے آس پاس موجود تمام لوگ بلواسطہ یا بلاواسطہ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ فضا کی الودگی گاڑیوں رکشوں موٹر سائیکلوں کے ساتھ ساتھ سگریٹ کے دھواں کی وجہ سے بھی ہے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی بات کریں تو سگریٹ پینے والوں کی تعداد جتنی ٹوٹل تھی آج اتنی سگریٹ پینے سے مرنے والوں کی ہے۔ سگریٹ پینا گھر کے اندر معیوب سمجھا جاتا تھا اگر کسی لڑکے کو عادت پڑ بھی جاتی تھی تو وہ گھر کے اندر نا سگریٹ لا سکتا تھا اور ناہی پی سکتا تھا اس کا مطلب لحاظ کسی حد تک قائم تھا۔ لیکن آج یہ حال ہے کہ پانچویں کلاس کے طالبعلم کے پاس سگریٹ پینے کے پیسے بھی ہیں اور جگہیں بھی ہیں۔ اس کا دوسرا نقصان اخلاقی تباہی کی صورت میں ہے آپ خود سوچیں ایک برائی دوسری برائی کو جنم دیتی ہے۔
اگر آج کچھ بچے یا نوجوان سادہ سگریٹ پیتے ہیں تو لازماً کچھ ماہ یا سالوں بعد اس میں چرس، افیون، یا پاؤڈر بھر کے پی رہے ہونگے۔ یعنی سگریٹ کو ہم محض ایک شوق نہیں کہہ سکتے ہیں بلکہ یہ اخلاقی برائیوں کی طرف پہلا قدم ہے اور اسکی روک تھام صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب اس پر ٹیکس بڑھایا جائے مہنگی کی جائے اور بیس سال سے کم عمر کے بچوں کی پہنچ سے دور ہو۔ بیس سال اس لیے لکھا ہے کہ ماہرین نفسیات لکھتے ہیں کہ عام طور پر بچے سگریٹ کی طرف مائل 13،14 سال کی عمر میں ہوتے ہیں اگر بیس سال کی عمر تک نا عادی ہوں تو بیس سال کے بعدعادی ہونے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ سکول کالج کی کینٹین سختی سے دیکھی اور پرکھی جائیں تاکہ یہ زہر سکول و کالج میں نا پہنچ سکے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیاں بھی ناصرف سگریٹ کی عادی ہورہی ہیں بلکہ دوسری نشہ اور اشیاء کی بھی ہورہی ہیں اسکی روک تھام اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ یہ معمار قوم ہیں آنے والی نسل انکے ہاتھوں پرورش پائےگی انکو سمبھالنا انے والی نسل کو سبھالنا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں دے بھی گزارش ہے کہ وہ سکول و کالج پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ان ٹھیلوں اورریڑھیوں پر ضرور نظر رکھیں کیونکہ انکے بنے ہوئے شوارموں، گول گپوں، اور برگرز میں نشہ آور اشیاء ملائی جاتی ہیں تاکہ بچے عادی ہوں اوران سے پھر خود، مانگ کریں اس نشہ کی۔ والدین سے بھی گزارش ہے کہ بچوں کے دوست بنیں ان سے انکے دوست احباب کے بارے میں پوچھتے رہیں انکی حرکات پر نظر رکھیں۔ آپکا مستقبل آپکے یہی بچے ہیں اگر وہ سگریٹ اور دوسری نشہ آور چیزوں کے عادی ہوگئے تو آپکا جمع کیا گیا مال بیکار جائے گا۔ بچائیں خود کو اپنے بچوں کو
جزاک اللہ
@irumrae