لاہور:والدین اپنے بچوں کے مستقبل کے تباہ ہونے پراس قدر غمزدہ ہیں کہ ان کوکچھ سمجھ نہیں آرہی ہےکہ وہ کیا کریں اور کدھرجائیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ والدین نے آخری امید کے طورپروزیرتعلیم پنجاب اوروزیراعلیٰپنجاب کواپنے درد کی دکھ بھری کہانی سنانی شروع کردی ہے ،
یہ کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ یہ نسل نو ہی قوم کا ، خاندان کا اورمعاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں اور اگر اس مستقبل کو تاریک کردیا جائے تو پھر ملک وقوم تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اورجواس وقت اس قوم کی نسل نو کے ساتھ ہورہا ہے یہ مستقبل میں ہونے والی تباہی اورپریشانی کے ابتدائی سنگلز ہیں کہ جن پرنظرثانی کرکے قوم کے نونہالوں کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے
لاہور بورڈ نے 9 ویںکلاس کے نتائج کا اعلان کیا تو ایسے بھیانک نتائج سامنے آگئے کہ والدین سمیت معاشرے کے دیگرطبقات کے پیروں تلے زمین نکل گئی
بڑی بڑی شہرت والے سکولوں کے مایوس کن نتائج نے والدین اور فیل ہونے والے بچوں کو بھی مایوس کردیا ہے،بالکل مایوس کُن نتائج ، والدین نے اپنی جمع پونجی اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت پرخرچ کردی لیکن جو نتائج سامنے آئے ہیں اس سے ثابت ہوگیا کہ تعلیمی اداروں میں تربیت نام کی چیز پہلے موجود نہیں تھی اب تعلیم کا بھی جنازہ نکل گیا ہے
ایسا ہی کچھ حال پنجاب کے بڑے بڑے ہائی سکولوں کا ہے کہ جن میں زیرتعلیم بچوں کو 9 ویں کلاس کے نتائج نے ان سرکاری تعلیمی اداروں کی قلعی کھول کررکھ دی ہےکہ جہاں بڑی بڑی بھاری تنخواہیں لینے والے اساتذہ سکولوں میں اپنی حاضری لگوانے جاتےہیں کہ ان کی سیلری پر کوئی رکاوٹ نہ بنے ، وہ پڑھانےکے لیے نہیں جاتے
ان سرکاری سکولوں میں قصورضلع کے ایک مشہورقصبے موکل کا بھی حال ایسا ہی ہے ، یہ وہ اسکول ہے کہ جس کے فارغ التحصیل طالب علم دنیا بھر میں اپنا اور اپنے قصبے اوراپنے ملک کا نام روشن کرچکے ہیں
اس گاوں کے دونوں ہائی سکولز جن میں گورنمنٹ بوائے ہائی سکول اور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول شامل ہیں ، ان دنوں ان دونوں اداروں میں زیرتعلیم 9ویں کلاس کے بچوں کے تباہ کُن نتائج نے اساتذہ کی کریڈبلٹی پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے کہ اتنی بھاری تنخواہیں لینے کے باوجود بھی اگرطالب علم پاس نہ ہوسکیں توپھروالدین ، معاشرے کے دیگرافراد کا حق تو بنتا ہے کہ وہ اس سانحہ پراعلیٰ حکام سے پوچھ سکیں کہ آخر ان کا قصور کیا کہ وہ مہنگائی کے اس دور میں اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کی خاطرسب کچھ قربان کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود نتائج مایوس کن ہیں،الٹا ان کی امیدوں پرپانی پھیردیا گیا ہے
گورنمنٹ بوائزہائی اسکول (11036)میں 84 میں سے صرف 22 طالب علم پاس ہوئے ہیں جبکہ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول(12036) کی 158 طالبات میں سے صرف 58 طالبات ہی پاس ہوسکیں
جو پاس ہوئے ان کے نمبراس قدرکم اورمایوس کن ہیں کہ ان کا مستقبل تاریک ہوگیا ہے ، اب وہ کسی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکتے ہیں ، نمبرز اتنے کم ہیںکہ وہ کبھی میرٹ پر نہیںآسکتے ، ان کے راستے بند ہوچکے ہیں، والدین بھی پریشان حال ہیں اور انکو بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا کہ وہ اب کیا کریں اور کدھر جائیں
قوم خود آزمائش میں رہ کر اپنے پیٹ کاٹ کرسرکاری اساتذہ کی بھاری بھرکم تنخواہوں کا بندوبست کرنے کے لیے ٹیکس کی صورت میں ادا کررہےہیں ، اساتذہ کو تو عین الیقین ہے کہ ان کو کچھ نہیں ہوگا ، ان کے اپنے بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں اور ان کا اندراج سرکاری سکولوں میں ہوتا ہے تاکہ اعلیٰ حکام کو بے وقوف بنایا جاسکے لیکن اس میں غریب عوام کا کیا قصور ہے
ہے کوئی جو غم کی اس گھڑی میں والدین کو کوئی امید دلا سکے ، والدین کو ان کے بچوں کے تاریخ مستقبل کوروشنی کی کرن دے سکے ، اب آخری امید صوبے کے وزیرتعلیم مراد راس صاحب ہیں یا پھرصوبے کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی صاحب، اب ان کے دل میںوالدین کے اس دکھ کا کتنا درد ہے یہ تو پتا چلے گا ان کے فیصلوں سے ، اور اگراب بھی کچھ نہ ہوسکا توپھروالدین اپنے بچوں کوان سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں بھیجیں گے جس سے ایک خطرناک بحران جنم لے سکتا ہے ، حکومتوں کو پہلے شرح خواندگی کے مسائل کا سامنا ہے ، ان حالات میں اگروالدین مایوسی کی صورت میں سرکاری تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو پھرایک اور بحران جنم لے سکتاہے جس کے اصلا ذمہ دار تو اساتذہ ہیں مگراس کا خمیازہ حکمرانوں کو عوام کی ناراضگی کی صورت میں بھگتنا پڑسکتا ہے








