دور جدیدایک وبال؛ تحریر؛ غلام مرتضی


آج کل چونکہ جدید دور ہے اور ہر کوئی گزرتے وقت کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے  ۔جس میں ہر کوئی خود کو دوسرے سے بہتر دیکھنا چاہتا ہے ۔لڑکے اچھی ملازمت چاہتے ہیں ،دوسروں سے زیادہ كمانا چاہتے ہیں ،خود کو دوسرے سے اچھی پوسٹ پر اور اونچا دیکھنا چاہتے ہیں ۔جبکہ لڑكياں بھی اس ریس میں پیچھے نہیں وه خود کو کسی سے كمتر تسلیم نہیں کر سکتیں ۔لڑکیاں نئے سے نئے ڈیزائن کے اور برینڈیڈ کپڑے پھننا چاہتی ہیں جبکہ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
اس زمانے کی بڑھتی رفتار میں کوئی بھی پیچھے نہیں ہے چاہے وه مرد ہو یا عورت ،بوڑھے ہوں یا بچے ۔بچے اچھی تعلیم کے لئے اچھے ادارے جانے کا خواب رکھتے ہیں ۔جبکہ بوڑھے پاركس میں جانے اور واک وغیرہ کرنے میں ٹھیک رهتے ہیں ۔وه بھی نئے دور کی سہولتوں  سے آراسته ہونا چاہتے ہیں ۔وه بھی وہیل چئیر اور موبائل فون کی سهولت بروئے کار لاتے نظر آتے ہیں۔ والدین کی خواہش ہے کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ کر ان کا نام روشن کریں ۔اگر کوئی کھیل کے میدان میں اگے بڑھ رہا ہے تو وہ اپنے بچوں کو بھی وہی کرنے کا کہتے ہیں ۔چونکہ آج کل فیشن کا دور ہے تو کچھ مائیں خود کو زمانے کے برابر دیکھنے کے لئے اپنی بچیوں کو بھی ویسے ہی تنگ لباس خرید کر دیتی ہیں تا کہ وہ کسی سے کم نہ لگیں ۔جب کہ اسلام ہمیں پردے کا درس دیتا ہے ۔یہی کچھ لڑکیاں اپنے انھیں ارادوں کو پورا کرنے کے لئے اپنے والدین کے خلاف بھی ہو جاتی ہیں اور انہیں اپنا دشمن سمجھتی ہیں ۔ 
ایک زمانہ تھا میلے لگتے تھے اور وہاں سادے لوگ اپنی اپنی خوشیاں سمیٹتے تھے ۔لیکن اب دعوتیں ہوتی ہیں جس میں ہر کوئی خود کو دوسرے سے الگ اور بہتر دیکھنا چاہتا ہے ۔کوئی عورت دوسری عورت کو اپنے سے بہتر برداشت کر ہی نہیں سکتی ۔
پہلے پہلے مائیں اپنے بچوں کو اپنی گود میں تربیت دیتی تھیں لیکن اب یھاں بچا پیدا ہوتا ہے بولنے کے قابل ہوتے ہی اسے موبائل فون تهما دیا جاتا ہے ۔جس سے بچے کی اچھی پرورش نہیں ہو پاتی ۔
رخ کرتے ہیں جدید دور کے ایک بڑےمسئلے کی طرف جسے (fame) کہتے ہیں ۔اسے پانے کے لیۓ کوئی بھی کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔جیسا کہ آپ میں سے کوئی ایسا نہیں جو ٹک ٹاک جیسی بے هوده ایپ سے متعارف نہ ہو یہی کافی نوجوان اپنی لگن اور محنت سے کامیاب ہوئے پر کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہنر نہ رکھنے پر فحاشی کا سہاره لے رہے ہیں اور بےہوده حر کتیں کرتے دكهائی دیتے ہیں ۔جو کہ باقی نسل کو بھی خراب کر رہے ہیں ۔لڑکے ہوں یا لڑكياں کوئی پیچھے نہیں اس دوڑ میں ۔لڑکیاں الگ الگ طریقوں سے مشہور ہونا چاہتی ہیں جبکہ اپنا پرده تک بھول بیٹھی ہیں ۔وه لڑکیاں جو اسلام کی شہزادياں ہیں وه خود کو مغرب کی پرياں سمجھتی ہیں ۔
جبکہ لڑکے عجیب حرکتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔خدا نے مرد بنایا اپنے خاندان کی رہنمائی کے لیۓ ،عورت کی عزت کے لیۓ ۔مرد کی شان اسکی مونچھیں اور داڑھی ہوتی ہیں ۔مرد کی بارعب آواز پورے گھر میں دهات بٹھائے رکھتی ہے ۔جبکہ آج کل کچھ  لڑکے مرد بن کر راضی نہیں اور میك اپ  میں خوش رهتے ہیں ۔کئی لڑکے مشہور ہونے کے لئے داڑھی مونچھ ہٹوا کر لپ اسٹک لگانے کو عظیم سمجھتے ہیں اور بڑے بال رکھ کر اپنی مردانگی پر ایک دهبا لگا رہے ہیں ۔جس پر ان کے والدین بھی خاموشی تانے ہوئے ہیں ۔حال ہی کی ایک خبر ہے کہ لاہور میں ایک باپ نے اپنی بیٹی کو ٹک ٹاک جیسے وبال سے دور رهنے کا کہا جس پر لڑکی سے اپنے باپ کو مارا۔مزاحمت کرنے پر باپ نے بیٹی کو كمرے میں بند کیا جس پر بیٹی نے پورے گھر میں آگ لگا دی ۔بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اس نشے میں دهت ہو چکی ہے ۔
اب آپ بھی خوب واقف ہیں اس دور سے ۔جس سے ہر عقلمند انسان پناہ چاہتا ہے ۔بے شک اب انسان کے لیۓ ہر کام آسان ہے لیکن یہی کچھ آسانياں ایسی بھی ہیں جو ہمارے لیے بہتر ثابت نہیں ہو سکیں ۔نوجوان نسل کو اپنے اور ملک کے دفاع کے لیۓ وه کام کرنا چاہیے جو دشمن کو پست کرے ناکہ ایسی حركات سے ملک و قوم کا نام برباد کرنا چاہیے ۔اسلام آباد میں قائداعظم یونیورسٹی میں سرعام منشیات کا استعمال جاری ہے جو کہ ہمارے لیے شرم کا باعث ہے ۔ 
اس میں کافی ہاتھ والدین کا بھی ہے جو کہیں نا کہیں اپنی اولاد کی تربيت میں كمي چھوڑ دیتے ہیں ۔یا پھر ان پر دھیان نہیں دیتے جس وجہ سے وه بری صحبت میں پڑ جاتے ہیں ۔آج ہم ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں کہ باہر پرده کر کے نکلنے کو جهالت سمجھا جاتا ہے اور فحاش لوگوں کو ماڈرن ۔بہرحال کوئی بھی انسان دوسرے جیسا نہیں اگر کوئی کہے کہ سب ایک ہیں تو یہ سراسر ناانصافی ہو گی ۔کیونکہ ایک مچهلی پورے تالاب کو گنده کرتی ہے اسی طرح چند ایسے لوگ ہمارے معا شرے کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔  ہمیں چاہیے کہ اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو دیکھتے ہی انہیں سمجھائیں کیونکہ باقی نسل پر ان کا منفی اثر پڑ رہا ہے ۔ یہ ہماری نسل کی بقا کی جنگ ہے جو ہم سب کو مل کر لڑنی ہے۔ اگر ہم سب اپنے حصّے کا کام کریں گے تو ضرور اس وبال پر قابو پا لیں گے ۔

Comments are closed.