دبئی:عرب امارات میں اسرائیلی وزیراعظم کی آمد یہودیوں کے لیے بڑی مبارک ثآبت ہوئی :یہودی بچّوں کے پہلے تربیتی کیمپ کا آغازبھی انہیں تعلقات کے پیش خیمے کے طور پر پیش کیا جارہاہے: اطلاعات کے مطابق متحدہ عرب امارات میں یہودی بچّوں کے پہلے دس روزہ تربیتی کیمپ کا پیر کے روز سےآغازہوگیا ہے۔ملک مقیم ربی نے اس اقدام کو’’گیم چینجر‘‘قرار دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق الصفا ،دبئی میں واقع منی معجزات یہودی پری اسکول میں منعقدہ کیمپ گان ایزی میں شرکاء کو یہود کی تاریخ اور مذہبی طریقوں کے اسباق پڑھائے جائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ گیند بازی اور ٹیلنٹ شوزوغیرہ بھی کیمپ کی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔
متحدہ عرب امارات میں مقیم ربی لیوی ڈچمین نے العربیہ انگلش کو بتایا کہ ’’یہ سب کچھ زبردست ہے۔ یہ ابراہیم معاہدے کا براہِ راست نتیجہ ہے اور ہم اس کے بارے میں بہت پرجوش ہیں‘‘۔
کیمپ گان ایزی کے آغاز کے موقع پر اتفاق سے اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے یواے ای کاتاریخی دورہ کیا تھا۔انھوں نےابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان سے ملاقات کی تھی۔ کسی اسرائیلی رہنما کا متحدہ عرب امارات کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا۔
کیمپ گان ایزی دنیا بھر میں درجنوں مقامات پر منعقد ہوتا ہےاور وہ متحدہ عرب امارات میں یہودی بچّوں کو ان کے مذہبی ورثے کے بارے میں سکھانے کے لیے امریکا اور فرانس سے کونسلروں کولایا جارہا ہے۔ یہ کیمپ 22دسمبر تک جاری رہے گا۔اس میں شرکت کے لیے 50 سے زیادہ بچّوں نے اپنے ناموں کا اندراج کرایا ہے۔
واضح رہے کہ ربی ڈچمین خود بھی کیمپ گان ایزی میں ایک نوجوان کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ وہ گذشتہ سات سال سے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔ڈچمین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں یہ کیمپ متحدہ عرب امارات میں پرورش پانے والے یہودی بچوں کے لیے’کھیل کا پانسہ پلٹنے والا‘ہے۔
اس سے انھیں نئے دوستوں سے تعلق داری قائم کرنے اور نئے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے۔اس ماحول میں متحدہ عرب امارات میں ایک بچّے کا بڑا ہونا معمول کی بات ہے۔
ربی نے مزید کہا کہ ’’اگرچہ متحدہ عرب امارات میں یہودی برادری 2020 کے وسط میں اسرائیل اوریواے ای کے درمیان باضابطہ طور پرسفارتی تعلقات کے قیام سے پہلے بھی موجود تھی لیکن معاہدۂ ابراہیم پر دستخط دنیا بھر کے یہودکے لیے ایک اشارہ تھا کہ یو اے ای ان کے لیے ایک اچھا گھر بن سکتا ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ یہودی خاندانوں کے لحاظ سے اچانک متحدہ عرب امارات نقشے پرآگیا۔معاہدہ ابراہیم سے پہلے شاید وہ کبھی متحدہ عرب امارات میں آنے پر غور نہیں کرتے تھے کیونکہ انھیں یقین ہی نہیں تھا کہ اماراتیوں کااسرائیل کے بارے میں کیا نقطہ نظر ہوسکتا ہے؟ نیز دوسرے موضوعات پر وہ کیا رائے رکھتے ہیں؟‘‘ لیکن ربی اماراتی رہنماؤں کی جانب سے یہودی برادری کے ساتھ حسن سلوک کی خوب تعریف کی ہے۔
اس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ دوطرفہ تعلقات معمول پر آنے کے بعد اس شانداربرتاؤ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ ’’جب ہم متحدہ عرب امارات میں یہودی زندگی کا احیاء، رواداری اور بقائے باہمی کی تعمیر جاری رکھے ہوئے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ یواے ای میں بچّے ان ہی اقدار کے ساتھ پروان چڑھیں جواماراتی قیادت میں ہیں یعنی رواداری کی اقدار، احترام اور پُرامن بقائے باہمی کی اقداران میں بھی پائی جائیں