دسمبرضمانتوں کا مہینہ، رانا ثناء اللہ کو لاہور ہائیکورٹ نے سنائی بڑی خوشخبری
دسمبرضمانتوں کا مہینہ، رانا ثناء اللہ کو لاہور ہائیکورٹ نے سنائی بڑی خوشخبری
باغی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق منشیات اسمگلنگ کیس میں رانا ثنااللہ کی درخواست ضمانت منظورکر لی گئی، لاہور ہائیکورٹ نے رانا ثناء اللہ کی درخواست ضمانت منظور کی،عدالت نے راناثنااللہ کو10لاکھ روپےکے2مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا.
لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ روز سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا، دوران سماعت اینٹی نارکوٹکس فورس کے پرا سیکیو ٹر کی طرف سے استدعا کی گئی ،عدالت ہمیں ڈائریکشن جاری کر دے ہم ایک ماہ میں مقدمہ کا ٹرائل مکمل کر لیں گے، اگر رانا ثناءاللہ بے قصور ہوئے تو ٹرائل میں بری ہو جائیں گے، رانا ثناءاللہ کے وکلا ءنے موقف اختیار کیا رانا ثنااللہ کوحکومت پر تنقیدکرنے پرانتقام کا نشانہ بنایا گیا، رانا ثنااللہ کوحکومت کی جانب سے دی گئی سکیورٹی وقوعہ سے تیرہ رو ز قبل واپس لے لی گئی،رانا ثنااللہ سے منشیات برآمدگی کے وقت کی کوئی ویڈیو یا تصویر موجود نہیں،رانا ثناء اللہ کی اے این ایف کے تھانے میں سلاخوں کے پیچھے گرفتاری کی تصویر جاری کی گئی،دعوے کے برعکس رانا ثناء اللہ کی مال مسروقہ کیساتھ تصویر جاری نہیں کی گئی،ساڑھے اکیس کلو وزنی سوٹ کیس راناثناء اللہ سے برآمد کرنے کاالزام لگایا گیا ،قانون کے برعکس موقع پرتعین نہیں کیا گیا کہ سوٹ کیس میں کیا تھا،گرفتاری کے وقت قبضے میں لی گئی چیزوں کو موقع پر میمو میں درج نہیں کیاگیا،جائے وقوعہ پرنقشہ بنانے کی بجائے اگلے دن نقشہ بنایا گیا جو الزامات کومشکوک ثابت کرتا ہے،رانا ثناء اللہ کے وکلاءنے کہا ایف آئی آر میں 21 کلو گرام ہیروئن سمگلنگ کا لکھا گیا جبکہ بعد میں اسکا وزن 15 کلو گرام ظاہر کیا گیا، رانا ثناءاللہ اس سے قبل ہی فتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا پھر بے بنیاد مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا،
اگر ہم ذاتیات پر اتر آتے تو رانا ثناء اللہ…………..شہریار آفریدی نے کیا کہہ دیا
میرے سامنے کبھی کسی نے یہ "کام” نہیں کیا، رانا ثناء اللہ نے کیا کہہ دیا
رانا ثناء اللہ کو گھر کا کھانا ملے گا یا نہیں؟ عدالت نے محفوظ فیصلہ سنا دیا
عدالت نے پوچھا کہ ہائیکورٹ میں پہلے دائر کی گئی درخواست ضمانت کا آرڈر بتائیں، وکلاءنے کہا وہ درخواست اسلئے وا پس لی تھی کہ سیف سٹی اتھارٹی کی فوٹیجز مل گئی تھیں،فوٹیجز کی صورت میں نئی گراﺅنڈ بن گئی تھی اسلئے درخواست واپس لی،جسٹس چودھری مشتاق احمد نے کہا 2 دفعہ ٹرائل کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر ہو چکی ہے؟ ملزم کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا جی 2 بار درخواستیں دائر کیں،رانا ثناءاللہ کیخلاف کیس میں فرد جرم عائد نہیں ہوئی، ملزم کے دوسرے وکیل سید زاہد بخاری نے عدالت کو ایف آئی آرکے مندرجات سے آگاہ کیا اور بتایا کہایف آئی آر کے مطابق اے این ایف تھانہ سے 22 کلو میٹر دور روای ٹول پلازہ پر رانا ثناءاللہ کو روکا گیا، ان کی گاڑی میں ڈرائیور عامر رستم اور فرنٹ سیٹ پر عامر فاروق موجود تھے، ملزم عثمان احمد، محمداکرم، سبطین ڈبل کیبن ڈالے میں موجود تھے، اے این ایف حکام ایف آئی آر کے مطابق سوا 4 بجے تھانے پہنچے، ایف آئی آرکے مطابق ہیروئن مو قع پر برآمد نہیں ہوئی بلکہ تھانے میں جا کر ملزمان کے سامنے سوٹ کیس سے ہیروئن نکالنے کا عمل تحریر کیا گیا، وکیل نے مزید کہا وقوعہ سے قبل رانا ثناءاللہ نے کچھ بیان دیئے جس میں انہوں نے اپنی گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا، عدالت نے کہا کیا اخباروں کے تراشے اس موقع پر زیر غور آ سکتے ہیں؟ جو کالم پیش کیا جارہا ہے وہ یہ تو 4 جولائی جبکہ مقدمہ یکم جولائی کا ہے؟ اخباری کالم تو کیس میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا، سید زاہد بخاری ایڈووکیٹ نے کہا آپ دیکھ لیں تسلیم کرنا نہ کرنا عدالت کے اختیار میں ہے، حامد میر، اعزاز سید اور حسن نثار نے اپنے کالموں میں ساری کہانی بتائی ہے، عدالت نے کہا نہیں تو کیا آ پ ان صحافیوں کو بطور گواہ عدالت میں پیش کریں گے؟ وکیل نے کہا حسن نثار، اعزاز سید اور حامد میر رانا ثناءاللہ کی طرف سے بطور گوا پیش ہونگے، ان تمام صحافیوں نے ہمیں یقین دہانی کروائی ہے اگر ضرورت ہوئی تو وہ پیش ہونگے، آج تک کوئی بھی ویڈیو سامنے نہیں آئی،رانا ثناءاللہ نے 8 سال قانون کی وزا ر ت سنبھالی ہے، کالعدم جماعتوں کیخلاف کارروائی کی،
رانا ثناء اللہ ایک بار پھرمشکل میں پھنس گئے، حکومت نے اب کیا کیا؟ جان کر ہوں حیران
رانا ثناء اللہ کیس کی سماعت کرنیوالے جج کا تبادلہ، ضمانت کیس کی سماعت ملتوی
رانا ثناء اللہ نے سینئر صحافی و اینکر پرسن مبشر لقمان کوجیل سے لکھا خط، کیا کہا؟
اے این ایف کے پرسیکیوٹر نے کہا رانا ثناءاللہ کی دوسری درخواست ضمانت قابل سماعت نہیں ، ہائیکو ر ٹ میں پہلے دائر درخواست میں موجود ہ درخواست والی ہی گراﺅنڈز موجودہیں، اے این ایف ریاستی ایجنسی ہے حکومتی نہیں ، یہ ریاست کا مقدمہ ہے کسی حکو مت کا مقدمہ نہیں ، عدالت نے کہا وہ کہتے ہیں کہ آپ نے افغانوں کا ریمانڈ نہیں لیا گیا اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا، پراسیکیوٹر نے کہا منشیات برآمدگی ازخود ایک جرم ہے اور رانا ثناءاللہ سے یہ منشیات برآمد ہوئی ہیں، اسی وجہ سے دوسرے ملزموں کو گرفتار نہیں کیا گیا، عدالت کے استفسار پر بتایا گیا رانا ثناءاللہ کیخلاف کل 6 افراد گواہ ہیں جن میں مدعی، ریکوری میمو بنانے والا اور دیگر لوگ شامل ہیں،رانا ثناء اللہ کا جرم ناقابل ضمانت ہے، اینٹی نارکوٹکس قانون کی دفعہ 9 سی کے مقدمہ میں موت کی سزا ہے، رانا ثناء اللہ کے وکیل احسن بھون نے کہا پراسکیوشن نے ابھی تک یہ ثابت نہیں کیا رانا ثناء اللہ سے منشیات برآمد ہوئی۔ پراسیکیوٹر نے کہا منشیات کی کیمیکل کی تجزیاتی رپورٹ آ چکی ، وکیل صفائی منشیات برآمدگی کے سوا تمام وقوعہ کی کارروائی کو تسلیم کرتے ہیں، اے این ایف کی ساکھ پر کبھی بھی شک نہیں کیا جاسکتا، پولیس کیسز میں ایسا ہوتا ہے جہاں اپنی طرف سےمنشیات ڈال دی جاتی ہیں، ٹرائل کورٹ نے غیرقانونی طور پر ویڈیو ریکارڈ طلب کیا۔عدالت نے فریقین کی بحث مکمل ہونے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا